رسم و رواج ثقافت بھی اذیت بھی
از قلم انجینیئر علی رضوان چوہدری
رسم و رواج کسی بھی معاشرے کا عکس ہوتی ہیں ۔لیکن اج کل ہمارے معاشرے میں رسم و رواج نے ہماری زندگی کو اجیرن کر دیا ہے اور اور سفید پوش طبقے کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں ۔
رسم و رواج کسی بھی ثقافت کا جھومر ہوتے ہیں۔ جن کی مدد سے معاشرے کے رہن سہن کا پتہ چلتا ہے۔ کچھ رسوم و رواج علاقائی ہوتے ہیں جو اس علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں جن میں یہ پائے جاتے ہیں۔ رسم و رواج قدیم تہذیبوں میں بھی رائج تھے جو اس وقت کے لوگوں کی تہذیب و ثقافت کے عکاس ہیں۔
رسم و رواج کا مقصد غمی و خوشی اور دُکھ سکھ کو بانٹنا اور انہیں احسن طریقے سے منانا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی قبیلے یا معاشرے سے، ہمارے رسم و رواج میں ہمارے دین کا عکس نظر آتا ہے، اس دین نے نہایت آسان اور سہل رسم و رواج سکھائے ہیں جن کو صحیح معنوں میں بامقصد، فائدہ مند اور سبق آموز روایات کہنا بے جا نہ ہو گا۔
افسوس ہمارا معاشرہ جدید دور کی آڑ میں اپنی راہوں کو چھوڑ کر دوسروں کے راستے پر نکل پڑا ہے جو محض گمراہی کا راستہ ہے۔ ہم نے جدید رسم و رواج کو اس قدر پھیلا دیا ہے جس سے نہ صرف ہم نے اپنے لئے مشکلات اکٹھی کر لی ہیں بلکہ اپنے سے نچلے طبقے کو بھی احساس کمتری کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ہمیں خوشی نصیب ہوئی ہے اور نہ ہی اطمینان قلب، دوسروں کی تکلیف دہ رسم و رواج کو اپنی روایات میں شامل کر کے ہم خود ہی دکھی ہو گئے ہیں۔ پھر ان بے تکے رواج کیلئے اخراجات کو پورا کرنا حق حلال اور محنت کی کمائی سے تو کم از کم ناممکن ہے جہیز جیسی لعنت اور طرح طرح کی فضول رسومات جنہیں رسم و رواج میں شامل کرنا رسم و رواج کی توہین ہے۔ رسم و رواج کے نام پر ایسی خرافات بدعتیں اور بے حیائی آ گئی ہے جو صرف برائیوں کو جنم دے سکتی ہے خوشی اور مسرت جیسے جذبات اور احساسات کا خون کر دیتی ہے۔
ڈیزائنرز کے نام پر بیہودہ لباس، سنگھار کے نام پر لپائی اور شاورز کے نام پر عریانیت اور بے حیائی کو خوب فروغ مل رہا ہے۔ کچھ میڈیاہائوسز نے تو جیسے ان خرافات کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ ہماری رسم و رواج ایک کونے سے جا لگی ہیں، چیدہ چیدہ لوگ اگر انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو ان کی دل آزاری کی جاتی ہے اور مذاق اڑایا جاتا ہے۔ انہیں فرسودہ اور کنجوس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل جدت اور جدید کے چکر میں اپنی ہی روایات سے بے بہرہ ہو رہی ہے۔ یہ سب ایک بھیڑ چال کی طرح ہو رہا ہے۔ ہر ایک کچھ نیا اور دوسرے سے بہت بہتراور انوکھا کام کر کے سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ اور غیروں سے وراثت سے ملی ہوئی رسمیں، خوشیاں اور مسرت دینے سے قاصر ہیں۔ یہ رسمیں ہمارے معاشرے کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے جو ہر حال میں پورا کرتے ہیں۔ چاہے حالات کسی بھی طرح کے ہوں ایسا نہ کرنے پر لوگ خود کو کمتر سمجھ لیتے ہیں۔
آزادی اور خوشی سے رہنا نہ صرف انسان کی ضرورت ہے بلکہ رسمیں کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں آدمی کی ان صنعتوں کی ترقی اور شگفتگی نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ نے ہر آدمی کو جدا جدا عنایت کی ہیں۔
اگر کوئی انسان ان رسومات کی پابندی نہ کرے تو خیال کیا جاتا ہے کہ غلط صحبت میں پڑھ چکا ہے جو ہمارے بزرگوں کے بنائے ہوئے روایات کو نہیں مانتے ۔جبکہ یہ رسومات کی پابندی نہ کرنے سے بہت مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ یہ رسوم غلط ہیں کیونکہ جس طرح انسان کے اندر برے کام کرنے کی قوتیں موجود ہیں ویسے ہی اسے ان کاموں سے روکنے کی قوتیں بھی موجود ہیں۔ اس لئے یہ رسوم زیادہ تر یکطرفہ ہوتے ہیں، اگلی پارٹی کے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ اس کی مالی حالت کو دیکھتے ہیں۔
خدا را دل و دماغ کو کھولیں اپنی شناخت کو قائم رکھیں، آسانیاں اور خوشیاں بانٹیں تاکہ آپ کے رسم و رواج زندہ و جاوید رہیں۔۔غیر ضروری رسم و رواج کو ترک کریں تاکہ زندگی میں اسانیاں پیدا ہوں ۔اور دوسروں کو بھی غیر ضروری رسم و رواج سے منع کریں خوش رہیں خوشیاں بانٹیں ۔


2 Responses
Excellent
Excellent