معاشرہ کیسے تکمیل پاتا ہے

 

معاشرہ کیسے تکمیل پاتا ہے

تحریر: انجینیئر علی رضوان چوہدری؛؛؛

معاشرہ کسی ایک فرد کے وجود سے نہیں بلکہ تمام افراد کے اجتماعی کردار سے تشکیل پاتا ہے۔ ایک مضبوط اور پرامن معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں ہر انسان اپنے حصے کی ذمہ داری کو خلوص اور دیانتداری کے ساتھ نبھائے۔ معاشرے کی تکمیل صرف قانون یا نظام سے نہیں، بلکہ اقدار، اخلاق اور باہمی احترام سے ہوتی ہے۔
معاشرے کی تکمیل کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نہ صرف سمجھی بلکہ ان کو احسن طریقے سے سر انجام دیں ۔ہم اپنے قول و فعل کو پورا کریں ۔ہم صرف حقوق نہ مانگیں بلکہ اپنے فرائض کو بھی احسن طریقے سے سرانجام دیں ۔
انسان فطرتاً سماجی ہے، وہ اکیلا نہیں جی سکتا۔ اسی تعلق، تعاون اور احساسِ ذمہ داری سے معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ اگر ہم انصاف، امانت داری، محبت اور رواداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو معاشرہ خود بخود ایک خوبصورت صورت اختیار کر لیتا ہے۔
معاشرے کی بنیاد اُس وقت کمزور پڑتی ہے جب ہم صرف حقوق مانگنے لگتے ہیں اور فرائض ادا کرنے کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ایک مثالی معاشرہ اُس وقت وجود میں آتا ہے جب ہر فرد اپنے قول و فعل میں سچائی، احترام اور عدل کو ترجیح دیتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تبدیلی کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر خود کو بدلنے سے گریز کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ تب ہی مکمل ہوتا ہے جب فرد اپنے کردار کو درست کرے۔ اگر ہر انسان خود کو بہتر بنانے کا عزم کر لے تو قومیں خود بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہیں۔
یاد رکھیں، ایک فرد کا اچھا عمل صرف اُس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے میں روشنی پھیلا دیتا ہے۔ لہٰذا معاشرے کی تکمیل کسی بڑے انقلاب سے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے نیک اعمال سے ہوتی ہے — سچ بولنے سے، انصاف کرنے سے، مدد کا ہاتھ بڑھانے سے، اور دلوں کو جوڑنے سے۔
ایک بہتر معاشرہ وہ ہے جہاں انسان دوسرے انسان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے، جہاں نفرت کی جگہ محبت، اور مفاد کی جگہ خدمت کو فوقیت دی جائے۔
یہی وہ معاشرہ ہے جو دراصل تکمیلِ انسانیت کا مظہر ہے۔
معاشرے کی اصل بنیاد انصاف، محبت، رواداری اور تعاون پر قائم ہوتی ہے۔ جب یہ عناصر مضبوط ہوں تو دلوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے، اور جب اعتماد قائم ہو تو ترقی کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج ہم نے ذاتی مفاد کو اجتماعی بھلائی پر ترجیح دے دی ہے، جس نے معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مکمل اور مضبوط بنے تو ہمیں اپنی ذات سے آغاز کرنا ہوگا۔ ہر فرد دیانت، سچائی، اور انصاف کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرے۔ یاد رکھیں! معاشرہ قانون سے نہیں، کردار سے بنتا ہے۔
معاشرے کی تکمیل اُس وقت ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوں، کمزوروں کا سہارا بنیں، علم کو عام کریں، اور اختلافِ رائے کے باوجود احترام کا دامن نہ چھوڑیں۔ یہی وہ اصول ہیں جو انسانیت کو دوام بخشتے ہیں۔
لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اجتماعی اصلاح اور انفرادی کردار دونوں کو بہتر بنائیں۔ کیونکہ اگر فرد سنور جائے تو معاشرہ خود بخود سنور جاتا ہے — اور تب ہی ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ واقعی “معاشرہ اپنی تکمیل پا چکا ہے۔”
ہم اکثر معاشرے سے بہتری کی توقع رکھتے ہیں، مگر بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ہم ہی سے بنتا ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو درست، اپنے کردار کو بہتر اور اپنے رویوں کو نرم بنا لیں، تو پورا ماحول خود بخود بدل جاتا ہے۔
ایک مثبت معاشرہ صرف الفاظ سے نہیں بنتا، اس کے لیے تعلیم، برداشت، انصاف اور احساس ضروری ہیں۔ جہاں ہر انسان دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے، وہاں نفرت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔
معاشرے کی مثبت سمت کا آغاز گھر سے، خاندان سے، اور اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ اگر ہر فرد یہ عزم کر لے کہ وہ دوسروں کے لیے خیر کا ذریعہ بنے گا، تو یہ دنیا امن، خوشی اور محبت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
یاد رکھیں، مثبت معاشرہ کوئی خواب نہیں یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
جب سوچ بدلتی ہے، تو دنیا بدل جاتی ہے

Tags :

Share :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

انجینئر علی رضوان چوہدری

انجینئر علی رضوان چوہدری

انجینئر علی رضوان چوہدری ایک مصنف ہیں جو اپنی تحریروں کے ذریعے امید، حوصلے اور زندگی کا مثبت پیغام دیتے ہیں۔

All Posts

Latest Post